FEDERAL PUBLIC SERVICE COMMISSION
COMPETITIVE EXAMINATION FOR 2019
RECRUITMENT TO POSTS IN BS-17
UNDER THE FEDERAL GOVERNMENT
URDU LITERATURE
TIME ALLOWED: THREE HOURS
PART – I (MCQS): MAXIMUM 30 MINUTES
PART – I (MCQS) MAXIMUM MARKS = 20
PART – II MAXIMUM MARKS = 80
NOTE: (i) Part – II is to be attempted on the separate Answer Book.
(ii) Attempt ALL questions.
(iii) All the parts (if any) of each Question must be attempted at one place instead of at different places.
(iv) Write Q. No. in the Answer Book in accordance with Q. No. in the Q.Paper.
(v) No Page/Space be left blank between the answers. All the blank pages of Answer Book must be crossed.
(vi) Extra attempt of any question or any part of the question will not be considered.
PART – II
سوال نمبر ۲۔ (الف) درج ذیل میں سے کسی ایک جُزو کی تشریح کیجئے اور شاعر کا نام بھی لکھیے۔ (۱۵)
جُزو اول (۱) تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
(۲) اصل شُہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
(۳) پر تو حُور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
(۴) رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ
رُتبے میں مہر و ماہ سے کم تر نہیں ہوں میں
جُزودوم ۔ تند و سُبک اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کو تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق کے مضراب سے نغمہ ء تار حیات
عشق سے نور حیات، عشق سے نار حیات
(ب) مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک سوال کا جواب دیجیئے۔ (۱۰)
مجید امجد کی شاعری میں لمحہ ء موجود کی معنویت اُجاگر کریں۔ یا
“ایران میں اجنبی” کو پیش نظر رکھتے ہوئے راشد کی نظموں کا سماجیاتی مُطالعہ پیش کریں۔
سوال نمبر ۳۔ الف۔ روایت اور درایت سے کیا مراد ہے؟ “سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم” کی تالیف میں مولانا شبلی نے ان اصولوں کع کس حد تک اختیار کیا؟ یا
مُشتاق احمد یوسفی کی دیگر تصانیف اور “آب گُم” کا تقابلی جائزہ پیش کیجئے۔ (۱۵)
ب۔ درجہ ذیل میں سے کسی ایک اقتباس کی تشریح کیجیے نیز مضمون کا عُنوان اور مُصنف کانام بھی لکھیے۔ (۱۰)
خُودمُختار حکومتوں میں ایک بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ اُن میں سازشوں کی بہت گُنجائش ہوتی ہے۔ ہر شخص کی (خواہ وہ کوئی ہو) یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح “سرکار” کو خوش کرلیا جائے جس سے “پیا” خوش، اُسی کا راج۔ اس سعی میں رقابت ہوتی ہے اور رقابت سے طرح طرح کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ چلتا ہے اس کش مکش سے کذب و افترا، بہتان، مُخبری، غرض کوئی ایسی حرکت نہیں ہوتی جو حریف ایک دوسرے کے خلاف کام میں نہ لاتے ہوں۔ یہ ایک عجیب اسرار ہے جس کا سلسلہ دُور دُور تک پہنچتا ہے اور عجیب رنگ میں ظہور پذیر ہوتا ہے اور ایسے حیرت انگیز نتائج پیدا ہوتے ہیں جس کا سان گُمان بھی نہیں ہوتا۔
یا
انسان کی زندگی بہت تھوڑی ہے بہت مشکل ہے کہ اس چند روزہ حیات میں تحصیل بھی کرے اور پائے کمال کو پہنچی اور ایسے کام کریں جنہیں بقائے دوام ہو اور خلق خدا کون سے فائدہ ہو وقت ایک نعمت ہے اور خدا کی دوسری نعمتوں کی طرح انسان وقت اس کی بھی قدر نہیں کرتا اور اس وقت ہوتی ہے جب کہ انسان کے پاس وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے ہے انسان دنیا میں نہیں رہتا مگر اس کے اعمال رہ جاتے ہیں لیکن کتنے اعمال ایسے ہیں جنہیں بقا اور جو درخت سے لے کے جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں پر قبضہ رکھتے ہوں۔
سوال نمبر 4 درج ذیل میں سے کسی ایک نثر پارے کی تلخیص کیجیے۔ (15)
ہر دکھ، ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا ایک راز کھول دیتی ہے بودھ گیا کی چھاؤں تلے بدھ بھی ایک دکھ بھری تپسیا سے گزرے تھے۔ جب پیٹ پیٹھ سے لگ گیا، آنکھیں اندھے کنوؤں کی تہ میں بے نور ہوئیں اور ہڈیوں کی مالا میں بس سانس کی ڈوری اٹکی رہ گئی، توگوتم بدھ پر بھی ایک بھید کھلتا ہے نروان کھلا تھا۔ جیسا اور جتنا اور جس کارن آدمی دکھ بھوگتا ہے ویسا ہی بھید اس پر کھلتا ہے۔ نروان ڈھونڈنے والے کو نروان مل جاتا ہے۔ اور جو دنیا کی خاطر کشٹ اٹھاتا ہے تو دنیا اس کو راستہ دیتی چلی جاتی ہے۔ سو گلی گلی خاک پھانکنے اور دفتردفتر دھکے کھانے کے بعد قبلہ کے قلب حزیں پر کچھ القا ہوا اور وہ یہ کہ قاعدے قانون داناؤں اور جابروں نے کمزور دل والوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بنائے ہیں۔ جو شخص ہاتھی کی لگام ہی تلاش کرتا رہ جائے وہ کبھی اس پر چڑھ نہیں سکتا ۔ جام اس کا ہے جو بڑھ کر خود ساقی کو جام و مینا سمیت اٹھا لے۔ بالفاظ دیگر، جو بڑھ کر تالا توڑ ڈالے، مکان اسی کا ہوگیا۔
یا
بسنت اور برسات میں لاہور کا آسمان آپ کو کبھی بے رنگ، اکتایا ہوا اور نچلا نظر نہیں آئے گا۔ لاڈلے بچے کی طرح چیخ چیخ کے ہمہ وقت اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے اور توجہ کا طالب ہوتا ہے کہ ادھر دیکھو اس وقت مجھے ایک شوخی سوجھی ہے۔ کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ کبھی تاروں بھرا۔ بچوں کی آنکھوں کی مانند جگمگ جگمگ۔ کبھی نوری فاصلوں پر کہکشاں کی افشاں۔ اور کبھی اودی گھٹاؤں سے زرتار باراں۔ کبھی تانبے کی طرح تپتے تپتے ایکا ایکی امرت برسانے لگا اور خشک کھیتوں اور اداس آنکھوں کو جل تھل کر گیا۔ ابھی کچھ تھا، ابھی کچھ ہے۔ گھڑی بھر کو قرار نہیں۔ کبھی مہرباں۔ کبھی قہر بداماں۔ پل میں اگن کنڈ، پل میں نیل جھیل۔ ذرا دیر پہلے تھل، بیہڑ، صحراؤں کا غبار اٹھائے آئے، لال پیلی آندھیوں سے بھرا بیٹھا تھا۔ پھر آپی آپ دھرتی کے گلے میں بانہیں ڈال کے کھل گیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
(۲۰)سوال نمبر ۵: کسی ایک موضوع پر مضمون تحریر کیجئے۔
(۱) عالمگیریت اور مقامی ثقافتیں
(۲) اُردو ناول کے جدید رجحانات
(۳) میر تقی میر، دل اور دلی